دربار خواجہ میں امام احمد رضا کی حاضری


       مزرع چشت و بخارا و عراق و اجمیر۔ 

        کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا۔ 

                 ( رضا بریلوی ) 

           امام اہلِ سنت، الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت افغان نسل کے خوش حال اور متمول گھرانے میں بریلی شریف کی سرزمین پر محلہ جسولی میں ۱۴/ جون ۱۸۵۶ء کو ہوئی۔ 

           تاریخی نام *" المختار "* ہے۔۔ اعلیٰ حضرت نے اپنا سن ولادت اس آیت کریمہ سے استخراج فرمایا ہے۔۔ *"اولئك كتب فى قلوبه‍م الايمان و ايده‍م بروح منه"* یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمایا ہے اور اپنی طرف سے روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرمائی۔۔ 

           اپنے والد ماجد سے تعلیم پائی، خدا داد صلاحیتوں نے ۱۴/ سال کی عمر ۱۸۶۹ء میں سند افتاء کا ذمہ دار بنادیا۔۔ ۱۸۷۷ء میں خانوادۂ برکاتیہ کے عظیم بزرگ حضرت سیدنا آل رسول مارہروی سے بیعت ہوئے اور اسی جلسۂ بیعت میں تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازے گئے۔۔ 

           ۱۸۷۸ء میں حج کی سعادت حاصل کی جہاں علمائے حرمین شریفین نے سند و اجازت سے نوازا۔۔ دوسری بار ۱۹۰۵ء میں حج و زیارت کو گئے، مکہ مکرمہ میں ۸/ گھنٹے کے اندر *" الدولۃ المکیہ "* تصنیف فرمائی جسے دیکھ کر علمائے حرمین نے اپنا امام تسلیم کیا، اسی سفر میں بھارت کے چند علمائے سوء کی دریدہ ذہنیوں پر علمائے عرب سے آخری فیصلہ حاصل کیا جسے *" حسام الحرمین "* کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔ ۱۹۱۱ء میں قرآن عظیم کا شاندار ترجمہ *" کنزالایمان "* کیا۔۔ ۱۹۲۱ء میں وصال ہوا۔۔ ۱۸۵۶ء سے ۱۹۲۱ء تک کی ۶۵/ سالہ حیات میں جدید تحقیق کے مطابق ۱۰۴/ فنون پر ایک ہزار سے زائد کتب و رسائل تصنیف فرمائے، عشق و ایمان سے بھر پور ترجمۂ قرآن دیا۔۔  ۱۲/ ہزار صفحات پر مشتمل فقہی مسائل کا خزانہ *" فتاویٰ رضویہ "* کی شکل میں عطا کیا۔۔ 

           رسول اللہ ﷺ، صحابۂ کرام، اہلِ بیت عظام، ائمہ دین مجتہدین اور اولیائے کاملین کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا سخت محاسبہ کیا۔۔ چنانچہ حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیدی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے زیادہ کون سمجھ اور پرکھ سکتا ہے؟ امام احمد رضا کی حضرت خواجہ غریب نواز سے عقیدت و محبت بڑی گہری تھی۔۔۔ جیساکہ آپ سے کسی صاحب نے ایک مرتبہ شہر اجمیر کے ساتھ لفظ ( شریف) نہ لگانے کی بابت سوال کیا، تو آپ نے فرمایا:

           اجمیر شریف کے نام پاک کے ساتھ لفظ شریف نہ لکھنا، اور ان تمام مواقع میں اس کا التزام نہ کرنا، اگر اس بناء پر ہے کہ حضور سیدنا خواجہ غریب نواز کی جلوہ افروزی حیات ظاہری اور مزار پر انور کو ( جن کے سبب مسلمان اجمیر شریف کہتے ہیں) وجہ شرافت نہیں جانتا، تو گمراہ بلکہ عدواللہ ہے۔۔۔ صحیح بخاری میں ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "من عادى لى وليا فقد اذنته با لحرب" ( جس نے میرے کسی ولی سے عداوت کی تو اس سے میرا اعلان جنگ ہے) اور اگر یہ ناپاک التزام بر بنائے کسل و کوتہ قلمی ہے، تو سخت بے بر کتی اور فضل عظیم و خیر جسیم سے محرومی ہے۔۔ ( فتاویٰ رضویہ، جلد: ششم، صفحہ نمبر: ۱۸۷ ، ناشر رضا اکیڈمی، ممبئی، خواجہ غریب نواز اور ایک غلط فہمی کا ازالہ، صفحہ نمبر:۵) 

           ۱۳۲۵ھ میں سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمہ جب زیارتِ حرمین شریفین سے بھارت واپس تشریف لائے تو ممبئی کی بندرگاہ سے آپ سیدھے اجمیر شریف خواجۂ ہند کی بارگاہِ ناز میں حاضری دینے گئے، وابستگان و اہلِ عقیدت کا ایک ہجوم سیدی امام احمد رضا کو لے کر سب سے پہلے اپنے شہر یا اپنے گھر کو ان کے وجود سے مشرف کرنے کی سعادت حاصل کرنے کا اصرار کرتا رہ گیا۔۔۔ مگر آپ نے سارے عقیدت مندوں کی عقیدت پر حضرت خواجہ غریب نواز کے ساتھ اپنی عقیدت و شیفتگی کو ترجیح دی۔۔ ( خواجہ غریب نواز اور ایک غلط فہمی کا ازالہ، صفحہ نمبر: ۸) 

           چنانچہ اجمیر معلیٰ کے خدمت گزار سید حسین علی اجمیری نے لکھا ہے کہ:

           یہ حاضری ایسی عقیدت و محبت کی حامل تھی کہ ہم خدام آستانہ اور تمام مسلمانان اجمیر کے دلوں میں نقش ہوگئی۔۔ ( حضور خواجہ غریب نواز، صفحہ نمبر: ۵۹ ، ۶۰ ، مرتب: سید حسین علی اجمیری) 

           علامہ نور احمد قادری اپنے دادا، حاجی عبد النبی رضوی متوفیٰ ۱۹۴۹ء کراچی کی زبانی سنا ہوا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: اور یہ راوی حاجی عبد النبی رضوی امام احمد رضا کے مرید تھے اور یہ واقعہ سرکار اعلیٰ حضرت کے آخری ایامِ حیات کا ہے۔۔ 

           چنانچہ علامہ نور احمد قادری لکھتے ہیں:

           واقعہ اس طرح ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت کا حضور خواجہ غریب نواز کی خانقاہ میں عرس غریب نواز کے موقع پر پرمغز خطاب ہوا کرتا تھا اور اس کا مکمل اہتمام خانقاہ شریف کے " دیوان " صاحب کیا کرتے تھے: جس میں بڑے بڑے علما و فضلاء وعظ سننے کےلیے شریک ہوتے۔۔۔ بعض اوقات دکن کے حکمران، نظام دکن، میر محبوب علی خان اور میر عثمان علی خان بھی شریک ہوتے رہے۔۔۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی کا وعظ سننے کےلیے بےشمار لوگ جمع ہوتے۔۔۔ اسی سفر اجمیر میں ٹرین رک جانے والا واقعہ بھی پیش آیا تھا، جس کو طوالت کے خوف سے مختصر بیان کیا جا رہا ہے۔۔ 

           اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ بریلی شریف سے اجمیر شریف، عرس خواجہ غریب نواز میں حاضری کےلیے جانے لگے تو ان کے ہمراہ دس گیارہ ان کے مریدین بھی تھے۔۔۔۔ ان مریدین میں قابلِ ذکر مولانا شاہ عبد الرحمن قادری جےپوری اور محترم حاجی عبد النبی قادری بھی شریک تھے۔۔ 

           جب ٹرین پھلیرہ جنکشن پر پہنچتی تو قریب مغرب کا وقت ہوجاتا تھا۔۔۔ اور پھلیرہ جنکشن بڑا اسٹیشن ہونے کی وجہ سے ٹرین پھلیرہ جنکشن پر تقریباً چالیس منٹ ٹھہرا کرتی تھی۔۔۔۔ سرکار اعلیٰ حضرت اسی گاڑی میں سفر کر رہے تھے اور پھلیرہ جنکشن پر پہنچتے ہی مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا۔۔۔۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے مریدین سے فرمایا کہ: نمازِ مغرب کےلیے جماعت پلیٹ فارم پر ہی کرلی جائے۔۔۔ چنانچہ چادریں بچھادی گئیں اور سیدی اعلیٰ حضرت امامت کےلیے آگے بڑھے اور ارشاد فرمایا کہ: آپ حضرات پورے اطمینان و سکون کے ساتھ نماز ادا کریں۔۔ 

           ان شاءاللہ! گاڑی ہرگز اس وقت تک نہ جائے گی جب تک کہ ہم لوگ نماز پورے طور سے ادا نہیں کرلیتے ہیں۔۔۔۔ آپ لوگ قطعاً اس بات کی فکر نہ کریں اور پورے اطمینان کے ساتھ نماز ادا کریں، یہ فرما کر اعلیٰ حضرت نے امامت کرتے ہوئے نماز پڑھنا شروع کردی۔۔ 

           ادھر گاڑی کھلنے کا وقت ہوچکا تھا، جب گاڑی نے سٹی ماری تو پلیٹ فارم پر دیگر بکھرے ہوئے مسافر تیزی کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوکر اپنی اپنی سیٹوں میں بیٹھ گئے، مگر آپ کے پیچھے نمازیوں کی یہ جماعت پورے استغراق کے ساتھ نماز میں مشغول رہی۔۔ 

           اب گاڑی سٹی دےکر چلنے والی تھی مگر ہوا کیا کہ ریل کا انجن آگے کو نہ سرکتا تھا۔۔۔۔ اس لیے ڈرائیور اور گارڈ سب پریشان ہوگئے کہ آخر یہ ہوا کیا کہ گاڑی آگے نہیں جاتی؟ سارے ریلوے ذمے دار ہر ممکن کوشش کی مگر گاڑی آگے نہیں چلتی تھی۔۔۔۔ اتنے میں اسٹیشن ماسٹر جو انگریز تھا اپنے کمرہ سے نکل کر پلیٹ فارم پر آیا اور اس نے بھی ہر طرح سے چلانے کا مشورہ دیا مگر ناکام ہوگیا۔۔۔۔ آخر اسٹیشن ماسٹر نے گارڈ سے پوچھا جو نمازیوں کے قریب کھڑا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ انجن الگ کرو تو چلنے لگتا ہے اور ڈبوں کے ساتھ جوڑو تو بالکل پٹری پر جام ہوکر رہ جاتا ہے؟ وہ گارڈ مسلمان تھا، اس کے ذہن میں بات آگئی، اس نے اسٹیشن ماسٹر کو بتایا کہ سمجھ میں یہ آتا ہے کہ یہ بزرگ جو نماز پڑھا رہے ہیں کوئی بہت بڑے ولی اللہ معلوم ہوتے ہیں، یقیناً اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں۔۔۔۔ اب جب تک یہ بزرگ نماز ادا نہیں کرلیتے یہ گاڑی مشکل ہے کہ چلے۔۔۔۔ یہ خدائے تعالٰی کی طرف سے ان کی کرامت معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔ چنانچہ اسٹیشن ماسٹر نمازیوں کی جماعت کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ نماز میں اعلیٰ حضرت اور ان کے مریدین کا اس قدر استغراق عبادت اور خشوع وخضوع کا یہ روح پرور منظر دیکھ کر وہ بہت متأثر ہوا۔۔۔۔ جب اعلیٰ حضرت نماز و دعا سے فارغ ہوئے تو اسٹیشن ماسٹر آگے بڑھ کر ادب کے ساتھ بزبانِ اردو عرض کیا کہ حضرت! ذرا جلدی فرمائیں، یہ گاڑی آپ ہی کی مصروفیت عبادت کے سبب سے چل نہیں رہی ہے۔۔

           اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ: ان شاءاللہ! اب گاڑی چلے گی۔۔۔۔ اس واقعہ سے اسٹیشن ماسٹر پر اسلام کی روحانی ہیبت طاری ہوگئی۔۔۔۔ اب سرکار اعلیٰ حضرت اور سب لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں، یہ کہا اور مع اپنے سب ہمراہیوں کے گاڑی میں بیٹھ گئے، گاڑی سٹی دی اور چلنے لگی۔۔۔۔ مگر اس واقعۂ کرامت کا انگریز اسٹیشن ماسٹر کے ذہن اور دل پر بڑا گہرا اثر پڑا۔۔ 

           بہرکیف! اعلیٰ حضرت اور ان کے یہ چند مریدین تو اجمیر شریف روانہ ہوگئے مگر اسٹیشن ماسٹر سوچ میں پڑ گیا، رات بھر وہ اسی غور وفکر میں رہا، صبح اٹھا اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ حاضری کےلیے اجمیر شریف کو چل پڑا تاکہ وہاں درگاہ خواجہ غریب نواز میں حاضر ہوکر اعلیٰ حضرت کے دست مبارک پر اسلام قبول کرے۔۔۔۔ جب یہ اجمیر شریف پہنچا تو دیکھا کہ: درگاہ شریف کی شاہجہانی مسجد میں اعلیٰ حضرت کا ایمان افروز بیان ہو رہا ہے، وہ وعظ میں شریک ہوا، بیان سنا، اور جب وعظ ختم ہوا تو قریب پہنچ کر اس نے اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے اور عرض کیا کہ: جب سے آپ پھلیرہ جنکشن سے اجمیر شریف روانہ ہوئے ہیں میں اس قدر بے چین ہوں کہ مجھے سکون نہیں آتا۔۔۔۔ آخر اپنے افراد خاندان کے ہمراہ یہاں حاضر ہوگیا ہوں اور اب آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ آپ کی یہ روحانی کرامت دیکھ کر مجھے اسلام کی آسمانی صداقت کا یقین کامل ہوگیا ہے، اور مجھے پتہ چل گیا ہے کہ بس اسلام ہی خدائے تعالٰی کا سچا دین ہے۔۔ 

           چنانچہ سرکار اعلیٰ حضرت نے دربارِ خواجہ میں ہزاروں زائرین کے سامنے اس انگریز اور ان کے نو افراد کو کلمہ پڑھایا اور مسلمان کیا، اور ان کا نام عبد القادر رکھا جوکہ انگریزی نام *" رابرٹ "* تھا۔۔ ( بارگاہِ خواجۂ ہند میں امام احمد رضا کی حاضری، صفحہ نمبر: ۱۳ تا ۱۵ ) 

           مزید امام اہلِ سنت فاضل بریلوی نے خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے در کا غلام تصور نہ کرنے، اور آپ کی ذات کو ان کی غلامی سے باہر رکھنے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ: ۔ 

           اور اگر اس بناء پر ہے کہ حضور خواجۂ خواجگان کا غلام بننے سے انکار و استکبار رکھتا ہے، تو یہ بدستور گمراہ اور بحکمِ حدیث عدواللہ ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔۔ ( خواجہ غریب نواز اور ایک غلط فہمی کا ازالہ، ص: ۹ ) 

            علاوہ ازیں سیدی اعلیٰ حضرت نے اپنی تقریر و تحریر اور فتاویٰ میں حسبِ موقع و ضرورت بارہا اجمیر مقدس، خواجہ غریب نواز اور آپ کے کشف و کرامات و خدمات کا تذکرہ فرمایا ہے۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ آج اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلسلہ سے منسلک تمام رضوی حضرات اپنے آپ کو سرکار خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے در کا سوالی، بھکاری اور گدا جانتے ہیں، اور یہ سب اعلیٰ حضرت کی تعلیم کا ثمرہ ہے۔۔ 

                             از

   *محمد قمرالزماں نوری مصباحی راج محلی*


       خطیب وامام اقرا مسجد، علی حیدر روڈ، ٹیٹاگڑھ، کولکاتا ۱۱۹